عمر جاوید
کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے کے فلسفے کی نسبت سے ہمارے ملک کی مذہبی سیاسی جماعتوں میں اس بات کا رجہان پایا جاتا ہے کہ ملک کے اداروں میں اپنے نظریے کے لوگوں کو داخل کرکے ان اداروں سے کچھ خیر کی امید رکھی جاسکتی ہے. جیسے جیسے ان اداروں میں دیندار لوگوں کا اضافہ ہوتا چلا جاۓ گا ویسے ویسے وہ ادارہ یا ادارے شر سے پاک ہوتے چلے جائیں گے. مزے کی بات یہ ہیں کے ویسے تو جماعت اور جمیعت کے لوگ ایک دوسرے کے مدمقابل نظر اتے ہیں لیکن اس نظریے پر متفق ہیں. جمیعت کی پشت پناہی کرنے والے علماءدیوبند بھی شائد اس نظریے سے اتفاق کرتے نظر اتے ہیں.
بظاھر تو اس نظریے کی ابتدا پاکستان بنے کے بعد مولانا مودودی اور مفتی محمود کی تحریک سے ہوتی نظر اتی ہے لیکن کچھ غور کرنے پر یہ معلوم ہوتا ہیں کے وہ دراصل سر سید احمد خان صاحب تھے جنہوں نے اس نظریے کی داغ بیل ڈالی. اگر اس بات کو سہی تسلیم کر لیا جاۓ تو اس نظریے کی عمر کوئی ١٥٠ سال ہو جاتی ہے. اس پورے عرصے میں اس نظریے سے اتفاق کرنے والوں کی تعداد میں خاطر خوا اضافہ ہوا ہے اور آج اک بہت بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کے نیک اور ایمان دار لوگوں کو مختلف ریاستی اداروں کا حصہ بنا کر ان اداروں کو شر سے پاک کیا جا سکتا ہے.