-شاہنواز فاروقی
افلاطون نے کہا ہے کہ سیاست کے مسئلے کا حل یہ ہے کہ یا تو فلسفی کو حکمران بنادو یا حکمران کو فلسفی بنادو۔ مغربی فکر میں افلاطون کی اہمیت یہ ہے کہ وائٹ ہیڈ نے کہا ہے: سارا مغربی فلسفہ افلاطون کی فکر پر حاشیے یا Foot Note کی حیثیت رکھتا ہے۔ بعض لوگ اس رائے کو مبالغہ آمیز کہتے ہیں۔ بالفرض اگر یہ رائے مبالغہ آمیز بھی ہے تو بھی اس سے مغربی فکر میں افلاطون کی مرکزیت واضح ہے۔ مغربی فکر میں اتنی مرکزیت کی حامل شخصیت نے ریاست اور سیاست کو چلانے کا طریقہ یہ بتایا ہے کہ علم کی بالادستی کے بغیر ریاست و سیاست کو کامیابی سے نہیں چلایا جاسکتا۔ افلاطون سقراط کا شاگرد تھا اور سقراط کا صوفی ہونا تقریباً طے شدہ نظر آتا ہے۔ افلاطون نے بھی فلسفے کی تعریف یہ بیان کی ہے کہ فلسفہ دانش کی محبت ہے۔ یعنی فلسفہ خود تو دانش نہیں ہے مگر وہ دانش کی محبت سے پیدا ہوتا ہے۔
لیکن سقراط اور افلاطون کے یہاں دانش کی محبت سے کیا مراد ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ سقراط اور افلاطون وحی و الہام کی روایت کو حقیقی دانش سمجھتے تھے اور اس روایت کی تشریح و تعبیر ان کے نزدیک فلسفہ کہلانے کی مستحق تھی۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ افلاطون کے نزدیک حکمران کا تصور یہ تھا کہ اسے ’’لازماً‘‘ وحی والہام کی روایت کا پابند ہونا چاہیے۔ افلاطون کے لیے ریاست اتنی اہم تھی کہ اس نے شاعروں کی ایک خاص قسم کو اپنی مثالی ریاست میں جگہ دینے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ شاعر جذبات کو برانگیختہ کرتے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو افلاطون اپنی مثالی ریاست میں مغربی جمہوریت کے عَلم برداروں کو پیدا ہونے کی اجازت بھی نہ دیتا۔ اس لیے کہ ان کا وحی و الہام کی روایت سے نہ صرف یہ کہ تعلق نہیں ہے بلکہ وہ وحی و الہام کی روایت کے بدترین مخالف ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو افلاطون ’’خواص‘‘ نہیں بلکہ ’’خواص الخواص‘‘ کی حکومت کا قائل تھا۔
ہندوئوں کی تاریخ میں رام کا کردار مرکزی اہمیت کا حامل ہے۔ اگرچہ قرآن و حدیث میں رام کے بارے میں کوئی وضاحت یا صراحت موجود نہیں لیکن رام کے کردار میں ایسی صفات موجود ہیں جو اس امر پر دلالت کرتی نظر آتی ہیں کہ رام کا پیغمبر ہونا ممکن ہے۔ رام شہزادے تھے اور اقتدار کے مستحق۔ مگر ان کے والد نے ان کی سوتیلی ماں سے وعدہ کرلیا تھا کہ وہ اپنے بعد اس کے بیٹے کو بادشاہ بنائیں گے۔ رام کے والد کا انتقال ہوا تو رام کے سوتیلے بھائی کو بادشاہ بنادیا گیا اور رام کے لیے یہ سزا تجویز ہوئی کہ وہ چودہ سال جنگلوں میں گزاریں۔ رام کا سوتیلا بھائی رام سے بے پناہ محبت کرتا تھا اور وہ رام ہی کو بادشاہ بنانا چاہتا تھا مگر رام نے کہا کہ میں اپنے والد کے وعدے کی پاسداری کروں گا۔ چنانچہ وہ اپنی بیوی سیتا اور سوتیلے بھائی لکشمن کے ہمراہ جنگل کی طرف روانہ ہوگئے۔
بادشاہ بننے والے ان کے چھوٹے بھائی نے یہ دیکھا کہ رام بادشاہ بننے کے لیے تیار نہیں تو اس نے کہا کہ اچھا آپ جارہے ہیں تو جائیں مگر اپنے جوتے مجھے دیتے جائیں۔ رام نے جوتے بادشاہ بننے والے اپنے سوتیلے بھائی کے حوالے کردیے۔ اس سوتیلے بھائی نے رام کے جوتوں کے ساتھ یہ ’’سلوک‘‘ کیا کہ انہیں لاکر بادشاہ کے تخت پر رکھ دیا، اور یہ اس بات کا اعلان تھا کہ چودہ سال تک حکومت رام کے جوتوں کی ہوگی مگر ان کا سوتیلا بھائی حکومت کے ایک کارندے کے طور پر حکومت چلائے گا۔ رام اور ان کے خاندان کے ’’تقوے‘‘ کا یہ عالم تھا کہ رام، ان کی بیوی سیتا اور بھائی لکشمن تنہا جنگل میں رہتے تھے لیکن جب راون رام کی بیوی سیتا کو اغوا کرکے سری لنکا لے گیا تو رام نے لکشمن سے کہا کہ اپنی بھابھی کو تلاش کرو۔ میں ایک سمت جاتا ہوں تم دوسری سمت جائو۔ لکشمن نے کہا: لیکن مجھے یہ تو پتا نہیں کہ بھابھی دیکھنے میں کیسی لگتی ہیں۔ یعنی ان کی شکل و صورت کیسی ہے؟ کیونکہ میں نے آج تک ان کے پیروں کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔
رام کو بالآخر معلوم ہوگیا کہ ان کی بیوی کو راون نے اغوا کیا ہے۔ رام نے سیتا کی بازیابی کے لیے راون سے طویل جنگ کی اور اسے شکست سے دوچار کیا لیکن خود لنکا پر اپنا تسلط قائم کرنا پسند نہ کیا بلکہ راون کے چھوٹے بھائی کو جو فریقین کی معرکہ آرائی سے قبل رام کے ساتھ آکر مل گیا تھا، لنکا کا بادشاہ بنادیا۔ رام اپنے والد کے وعدے کے مطابق چودہ سال تک جنگل میں رہنے کے بعد ملک لوٹے اور اقتدار سنبھالا۔ رام کا دور امن، انصاف اور خوشحالی کا دور تھا اور ہندوئوں کی تاریخ میں اس سے اچھے دور کا تصور موجود نہیں۔ لیکن رام کی حکومت وحی و الہام کی روایت کے دائرے میں تھی۔
یہودی اپنے مذہب، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ کے سب سے بڑے منکر ہیں، مگر ان کی تاریخ کا بہترین زمانہ حضرت سلیمانؑ کا زمانہ ہے اور یہودیوں نے اسرائیل کی ریاست اسی زمانے کی ’’یاد‘‘ میں قائم کی اور وہ بیت المقدس میں ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ یہ اور بات کہ اسرائیل پہلے دن سے ایک سیکولر ریاست ہے اور یہودیوں کی ایک بڑی تعداد خودکہتی ہے کہ اسرائیل کا حضرت سلیمانؑ یا ان کے دورِ حکومت کی یاد سے کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ اسرائیل خود یہودیوں کے خلاف ’’زائن ازم‘‘ کی سازش ہے۔ لیکن بہرحال یہ حقیقت ہے کہ یہودیوں کے لیے مثالی ریاست کا نمونہ حضرت سلیمانؑ کی ریاست ہے۔ ایسی ریاست نہ کہیں موجود ہے نہ کبھی موجود ہوگی، لیکن اگر یہودیوں کی روایت میں ایسی ریاست کا تصور کیا جائے تو وہ بھی ’’خواص الخواص‘‘ کی حکومت ہوگی۔
اس سلسلے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ِمبارکہ بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ حدیث شریف کے مفہوم کے مطابق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا زمانہ رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ میرے زمانے کے بعد خلافتِ راشدہ ہوگی، اور اس کا زمانہ رہے گا جب تک اللہ چاہے گا۔ خلافت کے بعد ملوکیت ہوگی، اور اس کا زمانہ رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ ملوکیت کے بعد کاٹ کھانے والی آمریت ہوگی، اور اس کا زمانہ رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ اور اس کے بعد زمانہ ایک بار پھر خلافت علیٰ منہاج النبوہ کی جانب جائے گا۔
اس حدیث شریف سے ہمیں کئی اہم باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ پہلی بات یہ کہ اسلام کا تصورِ تاریخ دائروی یا Cyclic ہے۔ یعنی اسلام کے مطابق تاریخ دائرے کی صورت میں سفر کررہی ہے اور اس سفر میں وہ ایک بار پھر خلافت علیٰ منہاج النبوہ کے تجربے کی بازیافت کرلے گی۔ اس کے برعکس جدید مغرب کا تصور تاریخ یہ ہے کہ تاریخ خطِ مستقیم میں مسلسل آگے کی طرف سفر کررہی ہے۔ مثلاً جیمز فریزر نے اپنی معرکہ آراء تصنیف ’’شاخ زریں‘‘ میں انسانی فکر کی تاریخ کو یکے بعد دیگرے آنے والے چار ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ اس کے مطابق انسان کی کم سنی کا زمانہ جادو کا زمانہ ہے۔ انسان نے مزید ترقی کی تو مذہب کا عہد شروع ہوا۔ یہ گویا انسان کی نوجوانی کا عہد ہے۔ انسانی فکر نے مزید ترقی کی تو انسان نے مذہب کے مافوق الفطرت مزاج سے جان چھڑائی اور عقل کی بنیاد پر مرتب فکر کا آغاز کیا۔ انسانیت کا یہ دور فلسفے کا دور کہلایا۔
یہ انسان کی جوانی کا زمانہ ہے۔ انسانی فکر مزید پختہ ہوئی تو اس نے سائنسی طرزفکر کی بنیاد رکھی، اور یہ زمانہ انسان کی پختگی کا زمانہ ہے۔ تاریخ کے اس تصور کے مطابق اہلِ مغرب جمہوریت کو ایک ترقی یافتہ سیاسی نظام سمجھتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسلام اور مغرب کے تصورِ تاریخ میں زمین آسمان کا فرق ہے، اور اسلامی تصورِ تاریخ کی رو سے جمہوریت کا دور کاٹ کھانے والی آمریت کا دور ہے اور انسانی بالخصوص مسلم تاریخ میں سیاسی زوال کی انتہائی علامت ہے۔ لیکن مذکورہ حدیث شریف میں بیان ہونے والے چار ادوار کی روحانی اور علمی معنویت کیا ہے؟
اسلام میں حکمرانی چار طاقتوں کا مجموعہ ہے: روحانی طاقت، اخلاقی طاقت، علمی طاقت اور جسمانی طاقت۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانۂ مبارک ان چاروں طاقتوں کی بیک وقت موجودگی اور ان کے نقطۂ کمال کی علامت ہے۔ خلافت ِراشدہ میں براہِ راست وحی کی رہنمائی تو موجود نہیں تھی لیکن ’’راشد‘‘ کا مطلب ہے ہدایت یافتہ یا The Guided One۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے چاروں خلفائے راشدین کی رہنمائی کا کوئی نہ کوئی انتظام کیا ہوا تھا، یہی وجہ ہے کہ خلافتِ راشدہ عہد نبوی کے بعد ’’کمال‘‘ کا استعارہ ہے۔ ملوکیت کا مطلب یہ ہے کہ ملوک ہدایت کے نظام سے محروم تھے۔
یعنی ان کی حکومت میں روحانی اور اخلاقی قوت موجود نہ تھی۔ البتہ ان میں حکومت کی علمی یا انتظامی اہلیت تھی۔ کاٹ کھانے والی آمریت کا مفہوم یہ ہے کہ اب حکمران روحانی اور اخلاقی اہلیت ہی سے نہیں، حکومت کی علمی یا انتظامی اہلیت سے بھی محروم ہوچکے ہیں اور اب وہ صرف جسمانی طاقت کے زور پر حکومت کررہے ہیں۔ حدیث شریف کے مطابق چونکہ کاٹ کھانے والی آمریت سے حکمرانوں کے زوال کا دائرہ مکمل ہوجائے گا اس لیے اب تاریخ کو ایک نئے آغاز کی ضرورت ہوگی، اور یہ نیا آغاز خلافت علیٰ منہاج النبوہ کے سوا کچھ اور نہیں ہوسکتا۔
مسلمانوں کی عصری تاریخ میں اقبال جمہوریت پر گفتگو کرنے والی سب سے اہم شخصیت ہیں۔ اگرچہ اقبال کی اردو کلیات میں جمہوریت پر نو دس شعر ہی موجود ہیں، مگر ان نو دس شعروں میں بھی اقبال نے جمہوریت کی مبادیات کو سمیٹ لیا ہے۔ اقبال نے اپنے شعروں میں جمہوریت پر چار بڑے اعتراضات کیے ہیں۔
ان کا پہلا اعتراض مغربی دانش ور اسٹینڈل کے حوالے سے یہ ہے:
جمہوریت وہ طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیںکرتے
اقبال کے اس شعر کا مفہوم یہ ہے کہ جمہوریت ایک معیاری یا Qualitative نظام نہیں ہے بلکہ ایک مقداری (Quantitative) نظام ہے۔ اس طرح گویا جمہوریت نے انسان کی پوری فکری تاریخ کی نفی کردی ہے۔ انسان کی پوری فکری تاریخ معیاری نظام بندی کی تاریخ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زندگی کی معنویت، اس کا حسن و جمال، اس کی پائیداری، اس کی افادیت معیار سے ہے مقدار سے نہیں۔ چنانچہ جمہوریت نے گاڑی کے آگے گھوڑا باندھنے کے بجائے گھوڑے کے آگے گاڑی باندھ دی ہے۔ جمہوریت کے مقداری پہلو کے اطلاق سے امام غزالیؒ اور ایک جاہل برابر ہوجاتا ہے۔ جمہوریت کا مزید غضب یہ ہے کہ وہ ’’کمتر‘‘ سے ’’برتر‘‘ کا انتخاب کراتی ہے۔ حالانکہ اصولی، اخلاقی اور علمی اعتبار سے کمتر، برتر کے انتخاب کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اقبال نے جمہوریت پر دوسرا بنیادی اعتراض یہ کیا ہے ؎
ہے وہی سازِ کہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردے میں غیراز نوائے قیصری
اقبال کے اس شعر کا مطلب یہ ہے کہ جمہوریت کا ’’نیا نظام‘‘ ہونے کا دعویٰ فریب کے سوا کچھ نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ’’بادشاہت‘‘ جمہوریت کا لباس پہن کر آگئی ہے۔ فی زمانہ اس کی سب سے بڑی مثال امریکہ ہے۔ کہنے کو امریکہ دنیا کی سب سے مضبوط جمہوریت ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کے اکثر فیصلے امریکہ کے عوام نہیں امریکی سی آئی اے، پینٹاگون، امریکہ کے ایوانِ صنعت و تجارت، ملٹی نیشنلز اور امریکہ کے ذرائع ابلاغ کرتے ہیں۔ یہ ادارے ’’خواص الخواص‘‘ کی علامت ہیں۔ یہ الگ بات کہ ان کی آراء کو عوام کی آراء اور ان کے فیصلوں کو کسی نہ کسی حوالے سے عوام کے فیصلے قرار دے دیا جاتا ہے۔ بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہا جاتا ہے، لیکن بھارت کے حکمرانوں کی تاریخ کا نصف حصہ نہرو خاندان کی ’’میراث‘‘ ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کہنے کو عوامی جماعت ہے لیکن اس پر اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کا قبضہ ہے۔ باقی ماندہ بھارتی سیاست پر جرائم پیشہ عناصر کا قبضہ ہے۔ اقبال نے جمہوریت پر تیسرا بنیادی اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے ؎
تُونے کیا دیکھا نہیں یورپ کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر
چنگیز خان جارحیت اور خون آشامی کی بڑی علامت ہے۔ لیکن چنگیز خان نے کبھی نہیں کہا کہ وہ انسانی آزادی کا عَلم بردار ہے۔ اس نے کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ وہ انسانی حقوق کا چیمپئن ہے۔ اس نے کبھی نہیں کہا کہ وہ مساوات اور بھائی چارے کے تصورات پر ایمان رکھتا ہے۔ لیکن مغربی جمہوریت نے آزادی کا نعرہ لگاکر درجنوں اقوام کی آزادی سلب کی۔ اس نے انسانی حقوق کا نعرہ بلند کرکے انسانی حقوق کی پامالی کی تاریخ رقم کی۔ اس نے مساوات کا پرچم اٹھاکر عدم مساوات، اور بھائی چارے کی مالا جپتے ہوئے انسانی تعلقات کو روندا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو چنگیز خان کی پوزیشن جمہوریت اور اس کے عَلم برداروں سے بہتر ہے۔ اس لیے کہ کم از کم چنگیز خان کے قول اور فعل میں ہولناک تضاد تو موجود نہیں۔ اقبال کا جمہوریت پر چوتھا بنیادی اعتراض یہ ہے ؎
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تُو سمجھتا ہے کہ آزادی کی ہے نیلم پری
مغربی جمہوریت عہدِ حاضر میں انسانی آزادی کی سب سے بڑی علامت ہے، لیکن ایک سطح پر وہ عوام کی پست خواہشات کی خدائی کا اعلان ہے۔ دوسری سطح پر وہ اکثریت کے جبر کا مظہر ہے۔ اور یہ دونوں استبداد کی دو مختلف صورتیں ہیں۔ اسلامی اصطلاحوں میں گفتگو کی جائے تو مغربی جمہوریت ’’نفسِ امارہ‘‘ کی علامت ہے اور اسلامی نظام ’’نفسِ مطمئنہ‘‘ کی علامت۔ جمہوریت نفسِ امارہ سے آغاز کرتی ہے، اسی میں سفر کرتی ہے اور اسی کے دائرے میں اس کا سفر تمام ہوجاتا ہے۔ دوسری جانب اسلامی نظام کے دائرے میں حکمران خود بھی نفسِ مطمئنہ کی علامت ہیں اور وہ مسلم عوام کو بھی نفسِ امارہ کے چنگل سے نجات دلاکر انہیں نفسِ لوامہ اور نفس مطمئنہ، اور پھر نفسِ مطمئنہ کی مزید برتر صورتوں کی طرف لانا چاہتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اسلامی نظام فرد کو ’’بندگی‘‘ کی سطح پر پہنچاتا ہے اور وہ اس کی بندگی کو کامل تر بناکر اسے اس کے خالق و مالک اور تمام انسانوں کے قریب تر کرتا ہے۔
اس کے برعکس جمہوریت فرد کو اس کی پست خواہشات اور ادنیٰ مطالبات کی سطح پر پہنچاتی ہے، اور وہ پست خواہشات اور ادنیٰ مطالبات کی نفسیات کو ایک نظام بنادیتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسلامی نظام کا بنیادی تصور لاالہٰ الا اللہ ہے، اور جمہوریت کا بنیادی تصور لاالہٰ الا انسان ہے۔ جمہوریت کی تعریف ’’عوام کا نظام، عوام کے ذریعے اور عوام کے لیے‘‘ کا اصل پیغام یہی ہے۔ عصر جدید میں علماء کی عظیم اکثریت نے جمہوریت کی اس فلسفیانہ بنیاد کو مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ مسلم معاشرے میں حاکمیت صرف اللہ کی ہوگی اور قرآن و سنت کے خلاف کسی قانون کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ اس پوزیشن کا سب سے بڑا مظہر پاکستان اور اس کا ’’اسلامی آئین‘‘ ہے، لیکن گزشتہ چالیس سال کا تلخ تجربہ یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقے نے اسلام کو کبھی آئین کی قید سے نکلنے نہیں دیا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان کا آئین اسلام کا سب سے بڑا زنداں ہے، اور یہ صورت جمہوریت کے مجموعی کلچر اور مزاج کے عین مطابق ہے۔
No comments:
Post a Comment
Use of any abusive or inappropriate language will give us a reason to delete your comment.