Thursday, June 12, 2014

کیا کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے؟

عمر جاوید

کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے کے فلسفے کی نسبت سے ہمارے ملک کی مذہبی سیاسی جماعتوں میں اس بات  کا رجہان پایا جاتا ہے کہ ملک کے اداروں میں اپنے نظریے کے لوگوں کو داخل کرکے ان اداروں سے کچھ خیر کی امید رکھی جاسکتی ہے. جیسے جیسے ان اداروں میں دیندار لوگوں کا اضافہ ہوتا چلا جاۓ گا ویسے ویسے وہ ادارہ یا ادارے شر سے پاک ہوتے چلے جائیں  گے. مزے کی بات یہ ہیں کے ویسے تو جماعت اور جمیعت کے لوگ ایک دوسرے کے مدمقابل نظر اتے ہیں لیکن اس نظریے پر متفق ہیں. جمیعت کی پشت پناہی کرنے والے علماءدیوبند بھی شائد اس نظریے سے اتفاق کرتے نظر اتے ہیں.
بظاھر تو اس نظریے کی ابتدا پاکستان بنے کے بعد مولانا مودودی اور مفتی محمود کی تحریک سے ہوتی نظر اتی ہے لیکن کچھ غور کرنے پر یہ معلوم ہوتا ہیں کے وہ دراصل سر سید احمد خان صاحب تھے جنہوں نے اس نظریے کی داغ بیل ڈالی. اگر اس بات کو سہی تسلیم کر لیا جاۓ تو اس نظریے کی عمر کوئی ١٥٠ سال ہو جاتی ہے. اس پورے عرصے میں اس نظریے سے اتفاق کرنے والوں کی تعداد میں خاطر خوا اضافہ ہوا ہے اور آج اک بہت بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کے  نیک اور ایمان دار لوگوں کو مختلف ریاستی اداروں کا حصہ بنا کر ان اداروں کو شر سے پاک  کیا جا سکتا ہے.
اگر ہم یہ دیکھیں کے پچھلے ٦٥ سالوں میں جو مذہبی جماعتوں نے تگودو کی ہے، اس کے نتیجے میں کل ریاستی اداروں میں  کتنے فیصد ان کے ہم خیال لوگ پہنچے ہیں؟ اور ان لوگوں نے ان ریاستی اداروں کو شر سے پاک کرنے میں کوئی کامیابی حاصل کی ہے؟ کیا آج  یہ کہا جاسکتا ہے کے اگر ہم اسی طرح  چلتے رہے تو اگلے ٢٠ یا ٤٠ یا ٦٠… سالوں میں انشااللہ کچھ مثبت تبدیلی انے کے امکانات ہیں؟ زمینی حقائق کی روشنی میں ان باتوں کا جواب شاید مثبت نہ ہو. بلکے اس بات کے زیادہ ثبوت موجود ہیں کے ان اداروں کے مرہون منت معاشرے میں شر آج اور زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے، اور اگر اس کا مقابلہ کوئی کر رہا ہیں تو وہ اٹے میں نمک کے برابر خلوص نیت لوگ نہیں جو ان ریاستی اداروں میں کام کرتےہیں بلکہ روایتی دینی جماعتیں ہیں مثال کے طور پر تبلیغی جماعت اور مساجد وغیرہ. یہاں سوال یہ  ہے کے اگر پاکستان کی ٦٥ سالہ تاریخ میں اس نظریے کے سہی ہونے کے ثبوت موجود نہیں تو آج ان مذہبی جماعتوں کے لیڈران اک منٹ رک کر یہ کیوں نہیں سوچتے کے شاید یہ نظریہ اور طریقہ کارشاید ٹھیک نہیں اور کسی متبادل کی ضرورت ہے؟
اس مضمون میں ہم یہ دیکھیں گے کے نہ صرف یہ نظریہ مغالطہ آریوں پر مبنی ہیں بلکے اس پر اندھی تقلید کے نتیجے میں وقت اورافرادی قوت کے ضایع ہونے کی صورت میں قوم کو ناکابلے تلافی نقصان بھی ہو رہا ہے. راقم کی نظر میں اس کی بنیادی وجہ کچھ مندرجہ ذیل مفروضات ہیں جو مذہبی جماعتوں نے انگریزوں کے بنائے ہوے ریاستی ادارتی ڈھانچے کے بارے میں فرض کیے ہوے ہیں.
مفروضہ نمبر ایک: ایک ادارہ ایک اوزار کی طرح ہوتا ہے اور اس کو استعمال کرنے والا مثبت یا منفی طریقے سے استعمال  کرسکتا ہے.
مفروضہ نمبر دو: ایک ادارے کا ماحول اس میں کام کرنے والوں پر اثر انداز نہیں ہوتا.
مفروضہ نمبر تین: جس طرح  کوئی بھی فرد یا گروہ ایک ہجوم  کا حصہ بن سکتا ہے، اسی طرح کوئی بھی اپنی مرضی سے  کسی بھی ادارے  کا حصہ بن سکتا اور ادارہ کسی قسم کی کوئی مزاحمت نہیں کرتا.
مفروضہ نمبر چار: ایک ادارے کا کوئی تاریخی پسمنظر نہیں ہوتا اور وہ دوسرے اداروں سے الگ تھلگ ہو کر کچھ بھی کرنے کا مجاز ہوتا ہے.
مفروضہ نمبر پانچ: ادارے  کے اعلی حکام بلخصوص اس بات پر قادر ہوتے ہیں کے وہ ادارے کے اندرونی نظام میں اور اس کی نظریاتی بنیادوں  میں بلا روک ٹوک تبدیلی کرسکیں.
مفروضہ نمبر چھ: ادارے کے اندر کام کرنے والوں کے پاس اتنا ٹائم ہوتا ہے کے وہ ادارے کو اپنے نظریات کے مطابق ڈھالنے کی منصوبہ بندی کریں اور اس منصوبے ک عملی جامہ بھی پہنائیں ،اورکسی بھی قسم کی تبدیلی کو ادارہ اور تمام اسٹیک ہولڈرز بخوشی تسلیم بھی کرلیں .
کوئی بھی شخص جس نے کسی بھی ادارے میں کام کیا ہو وہ ان مفروضوں کو بے بنیاد قرار دے سکتا ہے. کچھ تفصیل کے ذریے بات انشااللہ مزید واضے ہو جاۓ گی.
کسی بھی معاشرے میں سماجی ،معاشی، یہ ریاستی ادارے معاشرے کی ضروریات اور نظریات کے مطابق ایک تاریخی عمل کے ذریے وجود می اتے ہیں اور مسلسل ارتکائی مراحل سے گزرتے رہتے ہیں. برصغیر میں جو معاشی اور ریاستی ادارے کام کر رہے ہیں وہ سب کو معلوم ہے کے انگریز اپنے  ساتھ لے کرآے اور برصغیر کی عوام  پر زبردستی مسلط کیے. پاکستان میں ابھی تک یہی ادارے براے نام کام کر رہے ہیں. اس کا مطلب یہ ہے کے یہ ادارے مسلمانوں کی معاشرتی، معاشی اور سیاسی ضروریات اور نظریات کے تکازوں کو پورا کرنے کے اہل نہیں . سوال یہ ہے کے کیا ان اداروں میں جن تبدیلیوں کی ضرورت ہے کیا وہ مذہبی جماعتوں کے گمان کردہ درج بلا طریقے سے آسکتی ہے؟
اس کے جواب میں کچھ تفصیل بیان کرنے کی ضرورت ہے. کسی بھی ادارتی نظام کے لیے ضروری ہے کے وہ کچھ اصولوں پر چلتا ہو اور اس میں کام کرنے والے ان اصولوں کے پابند ہوں. ان اصولوں کے  مطابق ادارے کے داخلی اور خارجی پالیسی مرتب  ہوتی ہے. یہ اصول ادارے ، اس کے شعبوں اور اس میں کام کرنےوالے ملازمین کی کارکردگی جاچنے کا پیمانہ بھی بتاتے ہیں.  اس اصولی ڈھانچہ کا ارتکا ایک تاریخی عمل کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوتا ہیں. اوپر سے لے کے نیچے تک ہر شخص پر ان اصولوں کی پابندی لازمی ہوتی ہے اور خلاف ورزی پر وہ سزا کا مستحک  بھی ہو سکتا ہے، اور اگر خلاف ورزی سنگین نوعیت کی ہے تو اس شخص کو نوکری سے فارغ بھی کیا جا سکتا ہیں. ادارے میں ہر ملازم کی زمیداریوں کے حدود کا دائرہ بھی اسی اصولی ڈھانچے کا حصہ ہوتا ہے، تمام ملازم اپنی حدود میں رہ کر کام کرتے ہیں اور کسی دوسرے کی حدود میں قدم رکھنا ایک غلط بات سمجھا جاتا ہے، اگر کوئی ملازم اپنی حدود  تجاوز کرکے کسی دوسرے ملازم کے دائرہ کار میں دخل اندازی کرے توممکنہ طور پر اس کے خلاف بھی ادارہ کروائی کرسکتا ہے. ہر ملازم کی اخلاقی زمیداری بھی اس کے کام کے حدود تک ہی محدود ہوتی ہے، اور وہ کسی دوسرے ملازم کی کسی بھی غیر اخلاقی حرکت کا ذمیدار نہیں ہوتا. ادارے میں بھرتی یا ترقی کے لیے یہ ضروری ہے کے ملازم  ادارے کے اصولی ڈھانچے اور نظریات پر کامل یقین رکھ کران کے مطابق چلنے پر تیار ہو، اگر نہیں تو اس کو نوکری ملنا مشکل ہوتا ہے، اور اگر مل بھی جاۓ تو کچھ عرصے کے بعد اس کو نوکری سے فارغ کر دیے جانے کا امکان ہوتا ہے. ادارے کا نظام ہر ملازم کی کارکردگی اور اصولوں کو پابندی کا ریکارڈ رکھتا ہے. سیاسی جماعتوں کی رکنیت بھی شاید انہی اصولوں پر قائم ہوتی ہیں.
ایک اور بات سمجھنا ضروری ہے کے ادارے میں  کام کرنے والے کا ادارتی کردار اور اس کا انفرادی کردار دو الگ الگ چیزیں ہیں. ادارتی کردار کا تعلق ان زمیداریوں سے ہوتا ہے جو اس ملازم کو سونپی جاتیں ہیں یا وہ ملازم اس ادارے میں اپنی ملازمت کے تحفظ کی وجہ سے مجبور ہو کر سرانجام دیتا ہے. ان زمیداریوں کو سرانجام دینے کیلیے ملازم اپنی انفرادی حیثیت میں پوری دیانتداری سے کام کرتا ہو، لیکن ان زمیداریوں کے حق و باطل ہونے کا اس کی دیانتداری سے کوئی تعلق نہیں. مثال کے طور پر ایک بینک کا  ملازم پوری دیانتداری سے سودی لین دین کر سکتا ہے،  ایک پارلیمنٹ کثرت راۓ سے پوری دیانتداری کے ساتھ قرآن اور سننہ کے خلاف بل پاس کرسکتی ہے یا اسلامی نظریات کونسل کے حکم کے خلاف انسانی حقوق کا بہانہ بناکر اپنی بات منوا سکتی ہے،کوئی اشتہاربنانے والی کمپنی میں کام کرنے والا اپنے کلائنٹ کی خواھش کے مطابق پوری دیانتداری سے فحاشی سے بھرپور اشتہار بنا سکتا ہے، اور وکیل پوری دیانتداری کے ساتھ اپنی  مجرم موکل کے لیے کیس لڑ سکتا ہے. کسی بھی ملازم کی ترقی کے لیے یہ لازم  ہے کے وہ اپنے اس ادارتی کردار کو پوری دیانتداری سے نبھاۓ. ایسا کئی دہایوں تک کرنے کی بعد وہ ملازم اس ادارے میں اعلی حکام کی سطح تک پہنچتا ہے. یہ عین  ممکن ہے کے ادارے کے اندر اپنی ملازمت کے تحفظ کے لیے ہر ملازم کو کرپشن، افسر شاہی، دھاندلی، اور سفارشی کلچر کا حصہ بننے کی ضرورت پیش اتی ہو. اور اگر یہ تمام خرافات ادارے کے سسٹم یا نظام کا حصہ بن چکیں ہوں تو ملازمت کے تحفظ کے لیے  اور بلخصوص  ترقی کے لیے ان تمام کالے کرتوتوں کا دیانتداری سے حصہ بننا ناگزیر ہو جاتا ہے. ایسی صورت حل میں جو ملازم ترقی کرتے کرتے اوپرپہنچ جایئں اور یہ تمام خرافات ان کے ایمان اور کردار کا حصّہ نہ بنیں یہ کسی معجزے سے کم نہیں. ایسی صورت حل میں یہ کوئی اچھمبے کی بات نہیں ہونی چاہیے کہ اگر کوئی ایماندار اور مخلص شخص کسی کرپٹ نظام میں داخل ہو گا تو اوپر پہنچتے پہنچتے یہ تو خود کرپٹ ہو جائے گا یا پھر نظام اس کو کسی غیر موثر پرزے  کی طرح بے دخل کردے گا
. یعنی کہ ایک ادارہ کسی جاندار کی طرح اندرونی اور بیرونی خطرات سے دفع کے لیے  ایک مدافعتی نظام کا حامل ہوتا ہے اب اگر کوئی ایسا گروہ جو نظریاتی طور پر اس ادارے کے متضاد ہو وہ اس ادارے میں داخل ہونا چاہے ہو تو ادارہ لازمی طور پر اپنے دفع کے لئے ہر ممکن کوشش کرے گا، اور اگر یہ گروہ کسی طرح اس ادارے کے اوپر حاوی ہو جاۓ اور اپنی مرضی کے مطابق اس ادارے کا رخ بدل دے، بھلے یہ جائز طریقے سے ہی کیوں نہ ہو، دوسرے ادارے اس ایک ادارے کو بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش  کریں گے. مصر میں اخوان کو دوسرے اداروں نے جس طرح راستے سے ہٹایا ہے اس کی مثال سب کے سامنے ہے. اس کی وجہ یہ ہے کے ہر ادارہ دوسرے ادارے سے اس طرح  منسللک ہوتا ہے جیسے ایک مشین کے مختلف پرزے. ہر ادارے کو اپنی بقا اور مالی مفاد کے لیے اس انگریز کے بناۓ ہوۓ نظام میں دوسرے اداروں کو ضرورت ہوتی ہے، اور دوسری طرف کوئی بھی ادارہ کسی بھی دوسرے اداروں پر حاوی نہیں ہو سکتا.
اس خصوصیت کی وجہ یورپ کی مخصوص تاریخ ہے جہاں  ایک بہت لمبے عرصے تک بادشاہت اور پاپاییت کے آمرانہ نظام نے یورپ کو پسماندگی کے اندھاروں میں دھکیلے رکھا. اس صورتھال سے نمٹنے کے لیے جو تحریکیں چلیں  انہوں نے بعد میں جو نظام مرتب کیا اور پوری دنیا میں کولونیل دور میں پھیلایا اس نظام میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کے کوئی بھی گروہ یا فرد پورے نظام پر حاوی نہ ہونے پاے .
اب اگر کوئی یہ کہے کے حاکمیت صرف اور صرف الله کی ذات کی ہے اور اس کے بعد اس  کے آخری نبیص کی ہے، اور اس کے بعد ائمہ اربعرح  کے ہے، اور پھر اس کے بعد علماء اور فقہا کرام کی ہے اور وہ ہی تمام اہم فیصلے کریں گے اور پارلیمنٹ سمیت تمام ادارے علماء کرام کے اگے اپنا سر تسلیم خم کریں گے مثَلاً قوم پر اور افواج پر جہاد کب فرض ہو گا، میڈیا کہاں تک آزاد ہو گا اور بنکاری کا سودی نظام چلے گا یا نہیں وغیرہ وغیرہ تو یہ سب کچھ انگریز کے بنا ئے ہوے اس نظام کو برداشت نہیں کہ ایک طبقہ وہ بھی فطرتاً مذہبی تمام اداروں پر حاوی ہو جاۓ.
مسلمانوں کی تخلیقی صلاحیتیں پاکستان بننے کے ابتدا میں شاید اس قابل نہیں تھیں کے  وہ ایک نیا نظام مرتب  کرتے چناچہ انہوں نے ١٩٤٧ کے بعد انگریزوں کے چھوڑے ہوے  ریاستی نظام کو کلمہ پڑھنے کو کوشش کی. قائد آزم نے ڈیپارٹمنٹ اف اسلامک ریکنسٹرکشن بنایا لیکن ان کے انتقال کے بعد یہ خواب ہے رہ گیا .اس کے بعد قرارداد مقاصد کو پاکستانی کانسٹیٹیوشن کا حصہ بنانے کی کوشش بلکل اسہی تھی جیسے کسی بس کے اگے ایک  پنکھا لگا کر یہ سمجھ  لیا جاۓ کے اب بس اڑنے کے قابل ہو گئی ہے. کیا اس پنکھے والی بس کا ڈھانچہ اس بات کی اجازت دیتا ہے کے ایک انتہائی تجربہ کر پائلٹ کی موجودگی میں بھی وہ جہاز کی طرح اڑنا شروع کردے.
انگریز کا بنایا ہوا یہ نظام ایک مشین کی طرح ہے جو کے انسان نما پرزوں سے چلتا ہے. ان پرزوں کو بنانے کے لیے جس فیکٹری کی ضرورت ہوتی ہے اسے اسکول، کالج اور یونیورسٹی کہتے ہیں. انگریز جب اس نظام کو برصغیر میں لے کر آئے تو انھوں نے دوسرے اداروں کے ساتھ پورا تعلیمی نظام بھی متعارف کروایا. اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کے اس فیکٹری کی پروڈکٹ ذہنی اور قلبی طور پر اس قابل ہوں کے وہ مشین کے پرزے کی طرح بن چوں چران اس نظام کا کارآمد حصہ بنے کو ہی زندگی کا مقصد سمجھے. اس بات کو ممکن بنانے کے لیے  کالجوں وغیرہ کا نظام بھی کچھ اسی طرح مرتب کیا گیا ہے کے ہر فرد ایک ہی فیلڈ میں مہارت حاصل کرپاتا ہے اور جب وہ نظام میں اکر نوکری کرتا ہے تو اس کو دوسرے شعبوں اور اداروں میں کام کرنے والوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے. یہ تعلیمی نظام لوگوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو اپنی فیلڈ سے اگے ابھرنے نہیں دیتا اور نہ ان کی ذہنی نشونماں اس طرح سے کرتا ہے کے وہ اس پورے نظام کو سمجھنے کے قابل ہو سکیں. نیز ان کی اخلاقی تربیت، تزکیہ نفس وغیرہ کا بھی کوئی خاص اہتمام نہیں ہوتا
. اکبر الہ آبادی نے اسی نظام کے بارے میں کیا خوب کہا ؛
یوں قتل سے وہ بچوں کے بدنام نہ ہوتا
افسوس کے فرعون کو کالج کی نہ سوجی
کالج اور یونیورسٹی وغیرہ سے  جو لوگ نکلتے ہیں وہ نچلی سطح  سے  مختلف اداروں کےمختلف شعبوں میں داخل ہوتے ہیں اور بھر آہستہ آہستہ بغیر کسی بھی چیز پر تنقید کیے یا سوال اٹھاے ادارے کے نظریات اور کلچر کے مطابق کام کرتے کرتے اعلی سطح تک پہنچتے ہیں. بھلے وہ کلچر کرپشن، دھاندلی، افسر شاہی، سفارش اور خودغرضی سے بھر پور ہی کیوں نہ ہو.
اب اگر کوئی جماعت اس نظام میں داخل ہو کر اس کو قابو کرنے کی کوشش کرے تو اس کی شروعات کہاں سے ہوں گی؟ کیا بیق وقت تمام اداروں کی اعلی سطح کی قیادت کو کسی طریقے سے تبدیل کیا جاسکتا ہے؟ اگر نہیں تو کیا ہر ادارے کی نچلی سطحہٰ سے داخل ہونے کی کوشش کی جاۓ؟ یہاں چند سو یا چند ہزار لوگوں کی بات نہیں ہو رہی بلکے لاکھوں لوگوں کی بات ہو رہی ہے، یعنی ہم پورے تعلیمی نظام کو اپنے نظریات کے مطابق تبدیل کرنے کی بات کر رہیں ہیں، اب جو مشکلات کسی بھی ادارے کا حصّہ بن کر اس کو تبدیل کرنے کے حوالے سے  پہلے بیان کی گئیں تھیں وہ تعلیمی نظام پر بھی حرف با حرف لاگو ہوتی ہیں. اب جو مذہبی سیاسی جماعتیں نظام کا حصّہ بن کر اس کو شر سے پاک کرنے کی بات کرتیں ہیں، ان کے پاس پارلیمنٹ کا ایک ناکارہ حصہ بننے کا تو لاہے عمل ہے لیکن دوسرے اداروں کو اپنے نظریات کا تعبے کرنے کا کوئی ممکنہ طریقہ موجود نہیں. وہ شاید اس مغالطے میں ہیں کے جب کبھی معجزاتی طور پر پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو افواج، عدلیہ، بیوروکریسی، میڈیا، سیول سوسائٹی وغیرہ ان کے اگے اپنا سر تسلیم خم کر لیں گے. ایسا سوچنے والے شاید احمکوں کی جنّت میں رہتے ہیں.
اس وقت صورت حل یہ ہے مذہبی سیاسی جماعتوں کی سیاست میں ناکام شمولیت کے نتیجے میں بدنامی دین کی ہورہی ہے. ایک عام آدمی جو مذہبی جماعتوں کے کارکنان  کو ذاتی طور پر نہیں جانتا وہ ان جماعتوں کی سیاست میں شمولیت کی کوششوں سے یہی نتیجہ اخذ کرتا ہے کے ان جماعتوں کے مقاصد میں اور دوسری سیکولر اور کرپٹ جماعتوں کے سیاسی مقاصد میں کوئی زیادہ فرق نہیں بلکے مذہبی جماعتیں سیاست کے لیے اسلام کے نام کا ناجائز استعمال کر رہیں ہیں. انسان اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے، تو جب مذہبی جماعتیں ماروسی طور پر کرپشن اور بددیانتی سے بھرپور سیاست کے میدان میں نظر آئیں گی تو ایک عام آدمی ان کے بارے میں مثبت گمان کیوں کر کرے گا؟ اور اگر یہ بات درست ہے تو اس بات کا دین کے پھیلنے پر کس قسم کے اثرات  مرتب ہوں گے اور ہو رہے ہیں اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے. اس کے برعکس دین کی خدمات کے حوالے سے اگر برصغیر میں تبلیغی جماعت، مدرسے اور مساجد کے نیٹ ورک کی خدمات کو دیکھا جاۓ تو اس کی مثال نہیں ملتی. اس کی وجہ یہ ہے کہ انگریزکے لادین نظام  سے ان روایتی دینی اداروں کا کسی قسم کا براہراست کوئی تعلق نہیں. ان روایتی دینی اداروں کا بہت سا کام جو کے نظریاتی نویت کا ہے ابھی کافی حد تک  باقی ہے.
اصل بات جو سمجھنے کے ہے وہ یہ ہے کے حقیقی جنگ نظام سے نہیں بلکے ان سیکولر اور لبرل نظریات سے ہے جن کے اوپر انگریزی نظام کھڑا ہے. نظام میں داخل ہونے کا مطلب یہ ہے کے اس کے بنیادی نظریات سے اتفاق کر لیا جاۓ. یعنی کے نظام میں شمولیت کے بعد تبدیلی یا انقلاب کا نارہ بے معنی ہو جاتا ہے. میڈیا اس نظریات کی جنگ میں سب سے اہم کردار ادا کر رہا ہے. میڈیا کے برعکس دوسرے اداروں کا پاکستان کی اکثریت سے کوئی خاص رابطہ یا تعلق نہیں. پاکستان کی اکثریت کی زندگی مسجد، مدرسے، روایتی بازار، جرگہ یا پنچایت، روایتی خاندان، وغیرہ کے گرد گھومتی ہے، اور انکو اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کے کون حکومت میں ہے، یا نہیں، وہ عام طور پر عدالتی نظام کا رخ نہیں کرتے، پولیس کی مدد حاصل نہیں کرتے، یا گورنمنٹ کے ہسپتالوں اور اسکولوں کا بھی رخ نہیں کرتے کیوں کے ان کو معلوم ہے کے ان کے اکثر مسلوں کا حل ان اداروں کے پاس نہیں.  اسٹیٹ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بینک اکاؤنٹ ہولڈرز کی تعداد پوری آبادی کا صرف دس فیصد یا اس سے بھی کم ہے. یہ وہ تمام لوگ ہیں جو اپنی ماہانہ تنخواہ بینک میں وصول کرتے ہے، یعنی یہ وہ لوگ ہیں جو ریاستی یا نجی اداروں میں ملازم ہیں. یعنی کے کل آبادی کا ١٠فیصد سے بھی کم اس ریاستی نظام سے اپنی معاشی ضروریات کے لیے براہے راست منسلک ہے. اس کا مطلب یہ ہے کے ملک میں اکثریت ان ریاستی اداروں اور مارکیٹ سسٹم پر براہراست انحصار کیے بغیر گزرا کر رہی ہے. ہمیں یہ بھی معلوم ہے کے پاکستان میں بہت سارے فلاحی ادارے اپنی مدد اپ کے تحت بغیر ریاستی مدد کے چل راہیں ہیں، ان میں پاکستان کے مدارس، مساجد کا نیٹ ورک اور تبلیغی جماعت جیسی تنظیمیں بھی شامل ہیں. میڈیا براہراست اس روایتی نظام کی نظریاتی بنیادوں کو کمزور کرنے میں سرگرم ہے، اگر خدانخواستہ میڈیا اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب ہو گیا تو یہ عین ممکن ہے کے چند سالوں میں مذہبی سیاسی جماعتوں کو اپنی نظریاتی سرحدوں کا دفع کرنا بھی مشکل ہو جاۓ.
چناچے ایک کرنے کا جو کام ہے وہ یہ ہے کے ان روایتی اداروں کو اور زیادہ مستحکم اور کارآمد بنایا جاۓ اور ان کے دائرہ کار کو مزید پھیلانے کے لیے مؤثر اقدامات کیے جایئں تاکے وہ اس نظریاتی جنگ میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکیں. دوسری بات جو کرنے سے زیادہ سمجنے کی ہے وہ یہ ہے کے تاریخ میں ایسی بیش بہا مثالیں موجود ہیں جن میں ایک پرانا اور فرسودہ ریاستی ڈھانچہ کی جگا ایک دوسرے ریاستی ڈھانچے نے لے لی ہو، مثال کے طور پر برطانیہ میں ابھی تک بادشاہ اور ملکہ موجود ہیں لیکن ان کا اثر و رسوخ ریاستی امور پر پارلیمنٹ کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے. انگریز جب برصغیر میں آئے تو انہوں نے مغلیہ سلطنت کے نظام کے ساتھ اپنا نظام کھڑا کرنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ پرانے نظام پر حاوی ہو گئے یہاں تک کے آج اس کا نام و نشان بھی باقی نہیں. چین میں بھی کچھ ٧٠ سال پہلے کچھا  ایسا ہی ہوا. ان تمام مثالوں سے یہ پتا چلتا ہے کے جب کوئی فرسودہ نظام کسی معاشرے میں جڑ پکڑ چکا ہو تو اس میں گھس کر اس کو تبدیل کرنے کے بجاۓ ایک نئے موثر نظام کی بنیاد رکھی جاتی ہے جو کے آہستہ آہستہ پرانے نظام پر حاوی ہو جاتا ہے. لیکن اس سے پہلے لوگوں کی نظریاتی بنیادوں پر کام کیا جاتا ہے اور ایسے لوگ تیار کیے جاتے ہیں جو متبادل نظام کی بنیاد رکھنے میں مددگار ثابت ہوں. اگر دیکھا جاۓ تو سرکار دوعالم حضرت محمّد مصطفیٰ ص نے بھی مدینہ جا کر ایک نئے معاشرے اور نظام کی بنیاد رکھی، لیکن اس سے پہلے انہوں نے ١٣سال مکے میں صحابہ کرام ر ض پر محنت کی.
پاکستان کی وہ اکثریت  جس کا ذریع معاش انگریز کے فرسودہ نظام سے براہراست منسلک نہیں، ایک متبادل نظام کو کھڑا کرنے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں، ایک ایسا متبادل جو مسجد، مدرسہ، روایتی بازار اور جرگہ سسٹم کو مزید بہتر، جامع   اور کارآمد بنا کر کھڑا کیا جا سکتا ہے. اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کے کیا مذہبی سیاسی جماعتوں کو انتظامی ڈھانچہ اتنا لچکدار ہے کے وہ اپنے لاہےعمل میں اتنی انقلابی تبدیلی لیکر آجائیں. اگر نہیں تو شاید وہ بھی اس مضمون میں بیان کی گیئ خصوصیت کے حامل ہیں. اگر وہ اپنے اندر تبدیلی نہیں لا سکتے تو جہاں تبدیلی کی پوری قوم کو ضرورت ہے وہاں تبدیلی کیسے لے کر آیں گے؟ فیصلہ ان کے اپنے ہاتھ میں ہے.

No comments:

Post a Comment

Use of any abusive or inappropriate language will give us a reason to delete your comment.