Friday, June 25, 2021

Time to call out Toxic Parenting

Finally someone wrote about the toxic parenting here (see below for Mr. Yameenudin Ahmed's article)... a sizable number of parents around will fall under the mentioned toxic category, because of their own unresolved issues, typically the behaviors are unintentional, often parents just unconsciously repeat an intergenerational cycle, assuming that's how it's done. What's worse is that they use the religious card to justify their actions or snub their children when they rebel ... the utter silence of society had been criminal I believe in this context, on top of that there is just one sided emphasis on the children (can't be any objection on that) to remain obedient, while their caretakers can do whatever they want despite the instruction for parents in Islam or message in Prophet's example as a parent is clear. 

Someone need to call them out and prevent the new generation from further damage ....

I won't claim to be a perfect parent, had been repeating some intergenerational mistakes, which I am trying to eliminate from my interaction with my kids. In this process i have learnt that it is fundamentally necessary for parents to complete their stress and grief cycles, so that they don't vent out frustrations on their kids. Mere councelling or guidance or pointing out of mistakes or workshop on best practices will not suffice, as often the lashing out on kids is almost beyond their conscious control. 

When our nervous system is already stuck in a fight/flight mode, we react in rage when triggered by an act of others (including children) which is perceived as problematic (which is often not problematic). To release the nervous system from the fight/flight mode, one must complete their grief and stress cycles, about which I have already been posting on my timeline since a while. My article on the stress regulation is also available on medium dot com. Once we achieve this state of calm, refered to as state of autonomics balance (between the two half's of the nervous system) or a regulated state, we can remain much in control of our reactions towards our children ...

کسی جگہ یہ بات چل رہی تھی کہ آج کل پیرنٹنگ پر کورسز ہوتے ہیں اور مختلف لوگ اپنی دکانداری کررہے ہیں جبکہ ان کورسز یا کوچنگ کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ پہلے بھی والدین بچے پالتے تھے اور کوئی کورسز وغیرہ نہیں ہوتے تھے تو اب ان کی کیا ضرورت ہے؟ میں نے وہاں یہ فرمایا تھا کہ بچوں کی تعلیم و تربیت ایک وسیع مضمون ہے اور میرے اپنے پاس پچھلے 15 برسوں سے سینکڑوں والدین مشوروں اور کاؤنسلنگ کے لئے آتے ہیں۔ مجھ سے پوچھا گیا کہ والدین کو کیا مشکلات ہوتی ہیں اور کیونکر انہیں پیرنٹنگ سیکھنے کی ضرورت آن پڑی ہے؟ میں نے اس کے جواب میں ایک تفصیلی مثال سے بات کو سمجھایا تھا۔ افادہ عام کے لئے یہاں شائع کررہا ہوں۔
ظاہر بات ہے کہ ایک کمنٹ کے اندر تمام تر مشکلات کا بیان نہیں ہوسکتا۔ لیکن میں ایک مثال دیتا ہوں جس میں والدین اور بچوں کے ساتھ میں نے سیشنز کئے۔ حال ہی میں مجھ سے چار بچوں کے والدین وقت لے کر ملنے آئے۔ انہوں نے پیرنٹنگ کا کوئی کورس نہیں کیا ہوا۔ یہ گھرانہ مروجہ معنوں میں ایک مذہبی گھرانہ ہے۔ والد ایک بڑی کمپنی میں پروڈکشن مینیجر ہیں اور والدہ گھر پر ہی ہوتی ہیں۔ بچوں کے دادا دادی بھی ساتھ ہی رہتے ہیں۔ حال ہی میں ان کا سب سے بڑا 16 سال کا بیٹا میٹرک کا طالب علم اچانک بغیر بتائے گھر سے چلا گیا۔ ایک ہفتے بعد اسلام آباد میں ماموں سے رابطہ کیا اور ان کے ہاں پہنچ گیا۔ یہی بچہ 13 سال کی عمر میں بھی گھر سے بھاگ چکا ہے لیکن ایک دن میں ہی واپس آگیا تھا۔ بچے کی پڑھائی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ والدین نے مجھ سے رابطہ کیا تھا کہ میں ان کے بچے کی کاؤنسلنگ کروں اور اس کو سمجھاؤں۔ میرا کہنا یہ تھا کہ بچے سے پہلے آپ کو کاؤنسلنگ کی ضرورت ہے لہٰذا آپ دونوں پہلے مجھ سے ملیں کیونکہ مجھے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ آپ کے پیرنٹنگ کے اندر مسائل ہیں اور ان کا حل ہونا ضروری ہے۔
ملاقات میں یہ بات مکمل طور پر سامنے آگئی اور کنفرم ہوگئی کہ بچے کا بھاگنا اور پڑھائی میں دلچسپی نہ لینا تو symptom تھا کسی انفیکشن کا جو گھر کے نظام میں موجود ہے اور بڑے یعنی والدین اور دادا دادی اس کے ذمہ دار ہیں۔
1۔ دادا ایک روایتی سخت گیر انسان ہیں۔
2۔ دادی ہمیشہ اپنی بہو اور بچوں کو ذہنی دباؤ میں رکھتی ہیں۔
3۔ بچوں کے والد اپنے والدین سے کچھ بھی کہنے یا سمجھانے سے قاصر ہیں اور وہ اسے والدین کا ادب سمجھتے ہیں۔ ان کی ہر صحیح غلط بات کو بغیر کسی ڈسکشن کے مان لیتے ہیں۔
4۔ بچوں کو باہر دوستوں کے ساتھ کھیلنے اور بیٹھنے کی اجازت نہیں ہے۔ سوائے ہفتے میں ایک دن ایک گھنٹے کے لئے۔ کیونکہ دادا کو یہ پسند نہیں ہے۔
5۔ امتحانات میں ہر صورت میں بہت اچھے گریڈز چاہئیں ورنہ خاندان میں ناک کٹ جائے گی۔ اور اس کے لئے ہر وقت پڑھتے رہنا (بقول والدہ کے اس سے مراد یاد کرنا اور رٹا لگانا ہے) بہت ضروری ہے۔
6۔ والد انجینئر ہیں تو بچے کو بھی آگے جا کر انجینئرنگ ہی کرنی ہے۔ کسی اور چیز کے بارے میں سوچنا ناکامی کی علامت ہے۔
7۔ ہر وقت اپنے بچوں کا خاندان کے اور بچوں کے ساتھ تقابل کرتے رہنا جس سے یہ بچہ بھی اور باقی تین بچے بھی احساس کمتری کا شکار ہوچکے ہیں۔
8۔ بچوں سے کوئی غلطی ہوجائے یا امتحانات میں نمبر والدین کی توقعات کے مطابق نہ آئیں تو بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرکے اپنے دل کی بھڑاس نکالنا۔
9۔ امتحانات میں نمبرز، گریڈز یا پرسنٹیج کو کامیابی کا معیار سمجھنا اور اپنے بچوں کے مستقبل کی تعمیر اس بنیاد پر کرنا۔
10۔ پورے سال میں صرف دو یا تین مرتبہ گھر سے باہر آوٹنگ پر جانا ورنہ سارا سال گھر پر ہی بند رہنا۔
11۔ والد کا بچوں کے ساتھ کوئی جذباتی تعلق نہ ہونا، اور 90 فیصد وقت اپنے والدین اور بہن بھائیوں اور ان کے کاموں کو دینا۔
اب آپ بتائیے۔۔۔ان ساری باتوں کے سامنے آنے کے بعد مجھے والدین کی تربیت پر کام کرنا چاہئے یا بچے کی کاؤنسلنگ کرنی چاہئے؟ یہ صرف ایک والدین کا مسئلہ نہیں ہے، میں نے پچھلے پندرہ برسوں میں سینکڑوں والدین کے ساتھ سیشنز کئے ہیں اور کم و بیش یہی اور اس کے علاوہ کئی معاملات سامنے آئے جن پر کتاب نہیں تو ایک کتابچہ تو مرتب ہو ہی سکتا ہے۔ بہرحال ان والدین کی شدید قسم کی کاؤنسلنگ کرنی پڑ رہی ہے بلکہ بچوں کے دادا دادی کی بھی تربیت کرنے کی ضرورت ہے۔
والدین کے ساتھ چند سیشنز کے بعد جبکہ انہیں یہ بات سمجھ آگئی ہے کہ ان کو اپنے اوپر بہت کام کرنے کی ضرورت ہے، اب میں اس بچے کے ساتھ سیشنز کر رہا ہوں۔ اس بچے کا کانفیڈینس تباہ ہوچکا ہے اور مستقل فرسٹریشن کی وجہ سے اچھا خاصا ڈپریشن میں ہے۔ والدین کو یہی نہیں معلوم کہ بچہ ڈپریس ہے اور ڈپریشن کے مریض کو ڈانٹ ڈپٹ نہیں کی جاتی۔
یہ ایک کہانی نہیں ہے۔ میرے پاس لاتعداد کہانیاں ہیں جو میں سنانا شروع کروں تو شام ہوجائے۔ مسائل صرف یہی نہیں ہیں جو اوپر بیان ہوئے ہیں۔ اس کی ایک دوسری انتہا یہ ہے کہ بچے بالکل آپے سے ہی باہر ہیں اور شتر بے مہار کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ اس کی الگ مثالیں موجود ہیں۔
بات سمجھنے کی یہ ہے کہ پیرنٹنگ یا بچوں کی تربیت ایک وسیع مضمون ہے اور سخت محنت کا متقاضی ہے۔ سینکڑوں والدین سے انٹرایکشن کے بعد آج کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں، ایک distracted دنیا میں ہر والدین کو اسے سیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ پہلے اس طرح کے کورسز تو لوگ نہیں کرتے تھے لیکن ہماری تاریخ میں ہمیشہ سے mentoring کا تصور رہا ہے تو جو لوگ اپنے مینٹورز سے جڑے ہوتے تھے، اور اپنے سے زیادہ علم، حکمت اور تجربہ رکھنے والے لوگوں سے سیکھتے رہتے تھے تو بچوں کی تربیت بہتر کرتے تھے اور ایسے لوگوں کی تعداد پہلے بھی کم تھی اور آج بھی کم ہے۔ لیکن جو لوگ اپنے تئیں خود کو ہر فن مولا سمجھتے تھے وہ پہلے بھی بچوں کی کوئی خاص تعلیم و تربیت نہیں کرتے تھے اور آج بھی نہیں کرپاتے ہیں۔ بلکہ آج کے اکثر والدین خود ذہنی طور پر اتنے distracted ہیں کہ وہ توجہ سے بچوں کے مسائل کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہم عام طور پر ایک اوسط یا اس سے نچلے درجے کی نسل پروڈیوس کرتے چلے آ رہے ہیں جہاں ہماری نگاہ میں ہمارے بچوں کی کامیابی کی معراج امتحانات میں اچھے نمبر لینا اور پھر کسی ادارے میں ایک عدد نوکری حاصل کرنا قرار پاتا ہے جہاں دادا ایک انجینئر تھے اور نوکری کرتے تھے، ابا بھی انجینئر ہیں اور نوکری کرتے ہیں تو بچہ بھی انجینئر بنے اور نوکری کرے۔ مثال کے طور پر بچے کا انٹرسٹ لکھنے میں ہے یا باغبانی میں ہے یا سائیکالوجی میں ہے یا درس و تدریس میں ہے تو اسے ان میدانوں کا شہسوار کیوں نہیں ہونا چاہئے؟ اسے انجینئر یا ڈاکٹر ہی کیوں ہونا چاہئے؟ بچے کی نفسیاتی اور جذباتی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے والدین کو اپنے اوپر کام کیوں نہیں کرنا چاہئے؟ کتنے والدین کو اس بات کا ادراک ہوگا کہ بچوں اور بچیوں کی مختلف عمروں میں کیا نفسیاتی اور جذباتی الجھنیں ہوتی ہیں اور انہیں کیسے سلجھایا جائے؟ آج کی تیز رفتار زندگی، ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے اثرات اور الیکٹرانک اور سوشل میڈیا نے والدین اور بچوں دونوں کو کس طرح سے متاثر کیا ہے اور ان سے پیدا ہونے والے مسائل کو کیسے حل کیا جائے؟ کیا والدین کی اکثریت اس حوالے سے بصیرت رکھتی ہے؟
اگر والدین کی اکثریت کے پاس یہ صلاحیتیں نہیں ہیں‌ تو کیوں ان کو اس حوالے سے کورسز اور ورکشاپس نہیں کرنے چاہئیں یا کوچنگ کے پراسیس میں کیوں نہیں ہونا چاہئے؟ ہمارے بچوں کو اور ہماری نسلوں کو لکیر کا فقیر ہی کیوں ہونا چاہئے؟ ان کو نئے راستے تلاشنا کیوں نہیں آنا چاہئے؟
امید کرتا ہوں کہ میں اپنا نقطہ نظر آپ کو سمجھا سکا ہوں گا۔ آپ لوگوں کی اس حوالے سے کیا رائے ہے؟


No comments:

Post a Comment

Use of any abusive or inappropriate language will give us a reason to delete your comment.