Wednesday, February 3, 2010

Outlook on Interest Free Micro-finance in Pakistan (URDU) by Omar Javaid

اسلام ہمیں اخوت اور بھائی چارے کا درس دیتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’جو اپنے لیے پسند کرو وہی اپنے بھائی کے لیے بھی پسند کرو۔ وہ شخص مسلمان نہیں ہوسکتا جس کا پڑوسی بھوکا سوجائے اور اس کا پیٹ بھرا ہوا ہو‘‘۔ قرآن ہمیں حکم دیتا ہے: ’’خرچ کرو اللہ کے راستے میں جو تمہاری ضرورت سے زیادہ ہو۔‘‘ اور ہمیں اس بات کا بھی علم ہے کہ اسلام ہمیں زکوٰۃ دینے کا بھی حکم دیتا ہے اور ساتھ ساتھ صدقہ اور خیرات کا بھی۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں جو یہاں پیش کی گئی ہیں ورنہ آپ نے اس سے زیادہ احادیث سن رکھی ہوں گی جن میں صدقہ و خیرات دینے اور اپنے مسلمان بھائی اور پڑوسی کی مدد کا حکم دیا گیا ہے۔اس کے علاوہ قرآن حکیم نے ہمیں سود سے بچنے اور تجارت کو اپنانے کا بھی حکم دیا ہے اور اتنی شدت سے دیا ہے کہ سمجھنے والے کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔‘‘ اس کے علاوہ احادیث بھی اتنی ہی شدت کے ساتھ ربا کو رد کرتی ہیں۔

جب ربا کو اسلام نے حرام قرار دے دیا تو مدینہ منورہ میں چند لوگوں کو یہ بات اتنی بری لگی کہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا جس کی تفصیل یہاں بیان کرنا مقصود نہیں۔ اس تذکرے کا مقصود یہ سمجھنا ہے کہ ربا کا کاروبار کرنے والے دراصل اللہ اور اس کے رسولؐ کے خلاف کھل کر جارحیت کے مرتکب ہیں۔ اس کے برعکس دینِ اسلام قرض کو خیرات پر افضل سمجھتا ہے۔‘‘ کیوں کہ ایسا قرض جس کے پیچھے دینے والے کا کوئی ذاتی مفاد نہ ہو اُس میں محبت، بھائی چارے اور رواداری کا جذبہ کارفرما ہوتا ہے۔ قرض میں اللہ تعالیٰ نے ایک خاص قسم کی برکت رکھی ہے۔
شاید اسلام کی ان خصوصیات اور برکات ہی کا نتیجہ تھا کہ ایک ایسا معاشرہ تشکیل پایا جس میں تاریخ میں پہلی بار لوگ زکوٰۃ دینے کی خاطر مستحقین کو ڈھونڈنے صبح گھر سے نکلتے اور شام کو ناکام لوٹ آتے۔ زکوٰۃ کی تعلیماتِ اسلام کے نتیجے میں بننے والے معاشرے میں لوگ زکوٰۃ لینے والے کے بجائے دینے والے بن چکے تھے۔ کیا آج ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جا سکتا ہے؟ ایک ایسا معاشرہ جس میں بسنے والا ہر شخص اس خوف سے آزاد ہو کہ اگر خدانخواستہ اس کے ساتھ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آگیا جس سے وہ معاشی طور پر مفلوج ہوجائے تو اس کو کوئی پوچھنے والا نہ ہوگا، اس کے بیوی بچوں کی آبرو خطرے میں پڑجائے گی اور اس کے بچے خدانخواستہ یتیم خانہ میں پناہ لینے پر مجبور ہوجائیں گے۔ 
ایسا معاشرہ تشکیل دیا جاسکتا ہے یا نہیں لیکن میں یہ ضرور جانتا ہوں کہ اس ملک میں ایسے افراد موجود ہیں جو اس طرح کے معاشرے کے نہ صرف خواہاں ہیں بلکہ اسے قائم کرنے کے لیے اپنی حیثیت اور استعداد کے مطابق کوئی نہ کوئی عملی کام بھی کررہے ہیں۔
ہم اس مضمون میں چند ایسے ہی افراد اور ان کے قائم کردہ اداروں کا تذکرہ کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے سرمایہ دارانہ معاشرے میں ضرورت مند افراد کی مدد کا بیڑہ اٹھایا ہوا ہے۔ ان اداروں کی مدد یا مزید اس طرح کے ادارے تشکیل دینے سے ہم ایک حقیقی فلاحی اسلامی معاشرے کی جانب ضرور پیش قدمی کرسکتے ہیں۔
ان افراد اور تنظیموں میں دو طرح کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جو کہ زکوٰۃ، خیرات اور صدقات کے ذریعے معاشی طور پر مفلوج افراد کی کسی بھی مشکل میں مدد کرتے ہیں۔ دوسری قسم ان افراد کی ہے جن کی خواہش یہ ہے کہ معاشرے کا ضرورت مند طبقہ، جسے ہمیں غریب کہنے سے اجتناب برتنا چاہیے‘ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوجائے۔ اس دوسری قسم کے افراد شاید زیادہ دوراندیش ہیں اور یہ سمجھ چکے ہیں کہ خیرات دینے کے بجائے ضرورت مند افراد کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا صدقۂ جاریہ اور زیادہ فائدہ مند ہے۔ 
میری معلومات کے مطابق پاکستان میں ’اخوت فاؤنڈیشن‘ اس کام میں پہلے نمبر پر ہے اور اس ضمن میں اب تک 50 ہزار خاندانوں کو قرض حسنہ کے ذریعے اپنے پاؤں پر کھڑا کرچکی ہے۔ اس فاؤنڈیشن کی سربراہی ڈاکٹر امجد کررہے ہیں۔ اسی طرح جناب اسماعیل صاحب اپنی مدد آپ کے تحت کئی خاندانوں کی اسی طرح مدد کرکے انہیں اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اخلاق احمد صاحب اسی سلسلے کی ایک اور مثال ہیں۔ ان کا ادارہ جس کا نام ’گیئر‘( GEAR ) ہے، اب تک درجنوں خاندانوں کو روزگار فراہم کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ گیئر کی مثال دینا یہاں اس وجہ سے بھی ضروری ہے کیونکہ یہ ادارہ کچھ ایسے پروجیکٹس پر بھی کام کررہا ہے جن کے ذریعے ایک فلاحی ادارہ بغیر کسی امداد کے چل سکتا ہے۔ اس ضمن میں اسلامک فنانس کے معتبر طریقے یعنی مشارکہ اور مضاربہ کو بروئے کار لاکر ضرورت مند افراد کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جاسکے گا اور اس کے ساتھ ساتھ مشارکہ اور مضاربہ کے ذریعے جو منافع کمایا گیا ہے اسے مزید افراد کی مدد کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
مستحق افراد کو خیرات دینے کے بجائے انہیں روزگار شروع کرنے کے لیے سرمایہ فراہم کرنا کیوں ضروری ہے اس سلسلے میں نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہماری رہنمائی کرتی ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ضرورت مند کو بھیک دینے کے بجائے کلہاڑی اور رسی دی تاکہ وہ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر بازار میں بیچ کر باعزت طریقے سے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پال سکے۔ یہ واقعہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ ایک ضرورت مند آدمی کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کا معتبر طریقہ کیا ہے۔ لیکن آج کل ہر شخص کے پاس یہ سوال ہے کہ ہم اس بات کا تعین کیسے کریں کہ ایک آدمی واقعی ضرورت مند ہے یا نہیں؟ میں اس سوال کو بہانے سے تعبیرکرتا ہوں، کیوں کہ اس بات کا تعین کہ آدمی ضرورت مند ہے یہ نہیں‘ تھوڑی سی محنت سے ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے وقت نہ آپ کے پاس ہے اور نہ میرے پاس۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ہماری ترجیحات میں یہ کسی قدر نیچے ہے‘ کیونکہ ہم مصروف لوگ ہیں اور ایسے لوگوں کو جن کو ہم جانتے تک نہیں، کیوں اپنا ’’قیمتی‘‘ وقت دیں؟ تو جناب جواب آپ کے سامنے ہے۔ ضرورت مند کی ضرورت کا تعین کرنے کے لیے ہمیں صرف ایک وزٹ کرنا پڑتا ہے، اس کے پڑوسیوں سے غیر محسوس طریقے سے بات چیت کرنی پڑتی ہے اور اس کے گھر (کے حالات) کے اندر جھانک کر اندازہ لگانا پڑتا ہے کہ وہ کس قدر ضرورت مند ہے۔ایک زمانہ تھا جب خلیفۂ وقت کے پاس اس چیز کے لیے وقت تھا اور وہ رات کے اندھیرے میں ضرورت مندوں کی حالت معلوم کرکے ان کی مددکیا کرتے تھے۔ دراصل یہ اُن کی ترجیحات میں شامل تھا۔ لیکن یہ نہ تو موجودہ حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل ہے اور نہ ہماری ترجیحات میں۔
آج کل بینک میں پیسے رکھوانا ایک ضرورت بن چکا ہے۔ اور جو لوگ سود کی لعنت سے بچنا چاہتے ہیں وہ اپنا پیسہ ’کرنٹ اکاؤنٹ‘ میں رکھ کر مطمئن ہوجاتے ہیں کہ چونکہ ان کو اپنے پیسہ پر سود نہیں مل رہا تو شاید ان کا پیسہ بھی سودی نظام میں استعمال نہیں ہورہا ہے۔ چند سال پہلے جب اسلامی بینک وجود میں نہیں آئے تھے تو اُس وقت لوگوں کے پاس زیادہ آپشنز نہیں تھے۔ لیکن آج ایسا نہیں۔آج ہمارے پاس ایسے طریقے بھی موجود ہیں جو بظاہر سود کی لعنت سے پاک ہیں۔ اسلامی بینکاری کا مقصدِ وجود جو کہ ان بینکوں کی ویب سائٹس پر موجود ہیں، یہ بتایا جاتا ہے کہ اسلامی بینکاری کے ذریعے وہ ایک ایسا معاشی نظام چاہتے ہیں جو اسلامی اصولوں کے مطابق تشکیل دیا گیا ہو۔ یہاں ایک سوال جو کہ ایک عام آدمی کے ذہن میں آتا ہے یہ ہے کہ اسلامی معاشی نظام کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ دولت چند ہاتھوں میں نہ ہو بلکہ معاشرے کے کونے کونے میں پھیل جائے، لیکن ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کے صرف5 فی صد کے پاس بینک اکاؤنٹس ہیں اور پاکستان میں موجود کل منی سپلائی(money supply) کا تقریباً70فیصد انہی اکاؤنٹس میں موجود ہے۔ اگر واقعی ایسا ہے اور اگر اسلامی بینکاری بھی سودی بینکاری کے شانہ بشانہ انہی5 فی صد افراد کی سہولت کے لیے کام کررہی ہے تو ہم کس طرح سے دولت کی مساوی تقسیم کے اسلامی معاشی اصول کو عملی طور پر رائج کرسکتے ہیں؟
یہاں قارئین کے ذہنوں میں بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے ممتاز ماہر معیشت محمد یونس کے قائم کردہ مائیکرو فنانس بینک ’’گرامین‘‘ کا خیال آسکتا ہے کہ شاید یہ زیرتبصرہ اداروں کی طرح کا نظام فراہم کرتا ہے جس میں ضرورت مندوں کی مدد کی جاتی ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ اول تو یہ کہ گرامین جیسے بینک سودی قرضے دیتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ جب سے مائیکرو فنانس بینکنگ کی ابتداء ہوئی ہے اُس وقت سے اب تک دنیا میں 650 سے زائدمائیکرو فنانس انسٹی ٹیوشنز(ایم ایف آئی) وجود میں آچکے ہیں جن کے ذریعے اربوں ڈالر کے قرضے دیے چکے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود آج تک ایک بھی ایسی’ ریسرچ رپورٹ‘ منظرعام پر نہیں آسکی جو یہ ثابت کرسکے کہ ’ایم ایف آئی‘ سے غربت کی شرح کم کرنے میں کوئی مدد ملی ہے۔ اس کی وجہ بہت سیدھی سی ہے۔ یہ بینک غریب کو جتنا دیتے ہیں اس سے زیادہ واپس لے لیتے ہیں۔ یعنی یہاں بھی دولت کا بہاؤ غریب سے امیر کی طرف ہے۔ اگر ایسا ہے تو کس طرح سے یہ بینک غربت کی شرح میں کمی لاسکتے ہیں؟
ان تمام باتوں کے بعد قارئین کا ذہن لازمی طور پر ایسے اداروں کی طرف جانا چاہیے جو غرباء کو بغیر کسی ذاتی مفاد کے غیرسودی قرضے فراہم کرتے ہیں۔ ایک فرد جو کہ بینک کے ’کرنٹ اکاؤنٹ‘ میں اپنا پیسہ اس لیے رکھواتا ہے کہ وہ سود کی لعنت سے بچ سکے تو اس کو اپنی رقم ’گیئر‘ اور ’اخوت‘ جیسے اداروں کو قرض حسنہ کے طور پر دینی چاہیے تاکہ وہ یہ رقم نہ صرف اپنی ضرورت کے وقت واپس نکلواسکے بلکہ ایک سودی بینک کے پاس اپنا پیسہ رکھنے سے بھی بچ سکے۔ یعنی آپ کا پیسہ بھی محفوظ رہے اور وہ کسی ضرورت مندکے کام بھی آتا رہے، اور جب آپ چاہیں اسے واپس بھی لے سکیں۔
ان اداروں کو قرض حسنہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اسلامی معاشی نظام کے اصول یعنی دولت کی مساوی تقسیم میں مددگار بن رہے ہیں، کیوں کہ یہ ادارے معاشرے کے اُن لوگوں تک آپ کی رقم پہنچاتے ہیں جن کو واقعی اس کی ضرورت ہے۔ اس طرح سے آپ کی رقم آپ کے لیے صدقہ جاریہ بن سکتی ہے جو کہ یقینی طور پر کسی اسلامی بینک کے پی ایل ایس اکاؤنٹ کے منافع سے بہت بہتر ہے۔ یہاں آپ کی تسلی کے لیے یہ بھی بتاتا چلوں کہ ان اداروں کا ریکوری ریٹ 99 فی صد ہے۔
میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ یہ طریقہ قرض حسنہ کی برکت کی وجہ سے زیادہ فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ ان تمام قوانین اور اصولوں پر عمل کیا جائے جن پر عمل کرکے قرض حسنہ قرض حسنہ ہی رہتا ہے۔ اس بات کی طرف اشارہ کرنا اس لیے ضروری ہے کہ معمولی سی بے احتیاتی قرض حسنہ کو ایک سودی قرض میں تبدیل کرکے دینے اور لینے والے دونوں کو اللہ اور اس کے رسولؐ کے خلاف محاذ پر کھڑا کرسکتی ہے۔ اس لیے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ اس معاملے میں علماء دین سے مسلسل رابطے میں رہا جائے، بلکہ علماء دین پر مشتمل ایک ’ایڈوائزری بورڈ‘‘ بھی قائم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کسی بھی قسم کی غلطی سے بچا جاسکے۔ 
کہاوت ہے کہ ’ایک آدمی کو مچھلی دے کر اس کو ایک دن کا کھانا کھلایا جاسکتا ہے اور اسی آدمی کو مچھلی پکڑنا سکھا کر ساری زندگی کھلایا جاسکتا ہے‘۔ قرض حسنہ جو کہ کاروباری مقصد کے لیے دیا جارہا ہے اس کے پیچھے یہی مقصد ہے کہ ایک شخص جو آج قرض لے رہا ہے کل وہ قرض دینے والا بن جائے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ایسے ادارے جو یہ کام کررہے ہیں کسی معاشرے کے لیے اتنے ہی ضروری ہیں جتنے کہ اسپتال اور شفاخانے۔ جس طرح اسپتال بیماروں کو شفا دینے کا ذریعہ بنتے ہیں اسی طرح ’اخوت‘ اور’گیئر‘ جیسے ادارے معاشی طور پر پریشان افرادکو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
ایسا نہیں ہوسکتا کہ خلوص نیت کے ساتھ اس طرح کے کام انجام دینے والا شخص یہ خواہش نہ رکھتا ہو کہ معاشرے سے ایسی معاشی مشکلات کا سرے سے ہی خاتمہ ہوجائے۔ کیا ’اخوت‘، ’گیئر‘ اور ’روزگار‘ جیسے ادارے یہ کام کرسکتے ہیں؟ یہ سوال بالکل ایسا ہی ہے جیسے کہ اسپتالوں کے بارے میں یہ سوال کیا جائے کہ کیا وہ بیماریوں کا خاتمہ کرسکتے ہیں؟ اگر کرسکتے ہیں تو شاید ان کو اپنی حدود سے نکل کر کچھ ایسا کرنا ہوگا کہ بیماریوں کو جڑ سے ہی اکھاڑ پھینکا جاسکے۔ اسپتال ضروری ہیں لیکن مسئلے کا حل نہیں۔
اب یہاں کئی سوال جنم لیتے ہیں جن کے جوابات کے لیے سب سے پہلے ہمیں تاریخ کا بھی مطالعہ کرنا چاہیے۔ کیا کبھی کسی ایسے معاشرے نے جنم لیا جس میں معاشی ناانصافی ختم ہوگئی؟ اگر ہاں تو اس کی کیا وجوہات تھیں۔ کیا کسی نے اس معاشرے میں ان بنیادی وجوہات ہی کو اکھاڑ پھینکا تھا جس کی وجہ سے معاشی ناانصافیاں جنم لیتی ہیں! وہ کیا وجوہات تھیں اور ہیں جن کی وجہ سے آج بھی روزانہ بیس ہزار سے پینتیس ہزار افراد بھوک کے ہاتھوں موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ ہر تین سیکنڈ کے بعد ایک انسان اسی وجہ سے موت کو گلے لگا لیتا ہے۔ کیا آبادی بہت بڑھ گئی ہے یا وسائل کم ہوگئے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق پوری دنیا کی ضرورت کے لیے 1.5 گنا زیادہ خوراک پیدا ہوتی ہے لیکن اس کا بیشتر حصہ ضائع ہوجاتا ہے یا کردیا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق دنیا کے تمام بھوکوں کو کھانا کھلانے اور زندہ رکھنے کے لیے 195 بلین ڈالر کی ضرورت ہے اور صرف امریکا ہی میں سالانہ 300 بلین ڈالر کی خیرات دی جاتی ہے جو کہ آپ کی اور میری طرح کے لوگ دیتے ہیں۔ لیکن اس خیرات کا شاید 5 فیصد بھی غربا کو خوراک فراہم کرنے کے لیے استعمال نہیں ہوتا۔
یہ مسئلہ بہت گمبھیر ہے اور شاید اس کا حل بھی اتنا ہی مشکل۔ لیکن کچھ نہ کرنے سے کچھ کرنا بہتر ہے۔ مسئلے کے حل کے لیے مسئلے کا ادراک بہت ضروری ہے اور صحیح اور مؤثر حل کے لیے اس کی تہہ تک جانا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ آخر کیا وجہ تھی کہ خلیفۂ وقت اپنے کندھے پر بوری رکھ کر رات کے وقت اسے کسی ضرورت مند کے گھر پہنچاتے تھے اور اپنی شناخت ظاہر کیے بغیر ہی واپس چلے جاتے تھے؟ آج کے زمانے میں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا؟ 
کیوں ہمیں ایسے ادارے کھولنے پڑرہے ہیں جن کے ذریعے معاشی طور پر مفلوج افراد اور گھرانوں کی مددکی جاتی ہے؟ شاید جواب آپ کے پاس ہو، لیکن صرف جواب سے ہی مسئلہ حل نہیں ہوتا، کچھ کرگزرنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
میں یہ سوچ کر کانپ جاتا ہوں کہ اگر’اخوت‘، ’گیئر‘ اور اسی طرح کے بے شمار ادارے جو اس وقت لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کررہے ہیں، نہ ہوتے تو لوگوں کی تکالیف میں کس قدر اضافہ ہوچکا ہوتا! ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں اس وقت تقریباً 150 بلین روپے کی زکوٰۃ اور خیرات دی جاتی ہے جو کہ مختلف ذرائع سے غربا اور مساکین تک پہنچ کر اُن کے کام آتی ہے۔ اندازہ کیجیے اگر یہ رقم پاکستان کے مخیر حضرات دینا بند کردیں تو کیا ہوگا؟ دوسری طرف یہ بات بھی سوچنے کی ہے کہ اس خطیر رقم کے باوجود پاکستان کے نچلے طبقے کے مسائل کیوں ختم نہیں ہوتے؟
میرا مقصد آپ کے ذہن میں بھی سوال ڈالنا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ اپنی حیثیت کے مطابق ’اخوت‘ اور ’گیئر‘ طرز کے اداروں کی مدد کرتے ہوں گے، لیکن اگر اس مضمون کو پڑھ کر آپ معاشرے کے مسائل کی جڑ کو ہی اکھاڑنے اور اس کے لیے ہرممکن طریقوں کے بارے میں سوچنا شروع کردیں تو زیرنظر تحریر کا مقصد پورا ہوجائے گا

No comments:

Post a Comment

Use of any abusive or inappropriate language will give us a reason to delete your comment.